12 Imaman E Ahl E Bait

12 Imaman E Ahl E Bait

“12 Imaman E Ahl E Bait” by Mufti Chaman Zaman is a thought-provoking exploration of ’12 imama,Mufti Chaman Zaman’. Published in 2023, this literary work is a testament to the author’s dedication to advancing knowledge in their field. The book is housed in the booksbylanguage_urdu,booksbylanguage collection, and its significance is underscored by its 2023-03-06T00:52:44Z publication date. Written in urd, it stands as a valuable contribution to the realm of literature. The has played a crucial role in shaping the narrative, making this book an essential resource for enthusiasts and researchers alike. Its unique 12-imaman-e-ahl-e-bait sets it apart as a distinctive work in the realm of 12 imama,Mufti Chaman Zaman. Updated on 2023-03-06T00:52:44Z,2023-04-14T19:07:21Z, this book continues to be a source of inspiration and knowledge for readers worldwide.

12 Imaman E Ahl E Bait

12 Imaman E Ahl E Bait

12 Imaman E Ahl E Bait

Buy From Store

[adinserter name=”Block 2″]

Details Of The Book :

Description :

﷽ حمدا لک یا اللہ ، صلوۃ وسلاما علیک وعلی آلک یا حبیب اللہ اہلِ بیتِ کرام کے ائمہ اطہار جنہیں عرفِ عام میں بارہ امام، بارہ امامانِ اہلِ بیت ، دوازدہ ائمہ علیہم السلام کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ چند دن پہلے ایک عمر وعقل رسیدہ شخص ،جسے بابائے ناصبیت قرار دینا موصوف کے حال کے بہت موافق ومناسب ہے ، موصوف کی انتہائی زہریلی گفتگو سننے کو ملی۔   گفتگو کیا تھی ، بس زہر آلود تیر تھے جو اہلِ سنت کی اہلِ بیتِ پاک سے عقیدتوں اور محبتوں کے آشیانے پر برسائے جا رہے تھے۔ موصوف کو جاننے اور اس کی تقریر وتحریر پر اطلاع رکھنے والوں سے پوشیدہ نہیں کہ حضرت کو اصل تکلیف اہلِ بیتِ پاک سے ہے۔ لیکن موصوف کی چالاکی اور چابکدستی کا عالم یہ ہے کہ: اہلِ بیتِ پاک کے ذکر پر اعتراض خود اہلِ بیتِ پاک ہی کے ذکر کی آڑ میں۔ تاکہ اپنے دل کی بھڑاس بھی نکال سکے اور “بغضِ اہلِ بیت” کے دھبے سے بھی بچ نکلے۔ “بابائے نواصب کی تفصیلی گفتگو دوسرے باب میں مذکور ہو گی لیکن یہاں موصوف کی گفتگو کا خلاصہ اور حاصل ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ قارئین کو سطورِ آئندہ سمجھنے میں آسانی ہو۔ بابائے نواصب کی گفتگو کا حاصل وخلاصہ یہ ہے کہ: “بارہ ائمہِ اہلِ بیت   کی ترتیب ایک سازش اور ایک گیم ہے۔” بابائے نواصب کی گفتگو منظرِ عام پہ آنے کے بعد بعض ایسی شخصیات کی جانب سے مجھے موصوف کی گفتگو پر اپنی رائے کے اظہار کا حکم ہوا کہ جن کے حکم کی تعمیل بندہ اپنی قبر کی روشنی کا ذریعہ سمجھتا ہے۔پس حکم ملتے ہی بندہ نے اپنی فکر کو تعمیلِ حکم کی جانب متوجہ کر لیا۔ پھر یکم رجب المرجب 1444 ھ کو مرشدِ کریم حضرت قبلہ الحاج امیر الدین نقشبندی دام ظلہ قلب کے عارضہ میں مبتلا ہوئے تو صاحبزادگان     02 رجب المرجب   1444 ھ / 25 جنوری   2023 ء کی رات قبلہ مرشد کریم   کو لے کر سکھر پہنچے۔ بندہ پہلے سے ہی ہاسپٹل پہنچ چکا تھا۔ قبلہ مرشدِ کریم کو ایمرجینسی میں لایا گیا ، ڈاکٹرز حضرات ضروری معاینہ میں مصروف ہو گئے۔ بندہ بھی پاس حاضر تھا۔ قبلہ مرشدِ کریم نے اسی دوران بندہ کی بعض تصانیف کا تذکرہ کرتے ہوئے کلماتِ ستائش سے نوازا۔ پھر پوچھا کہ اس وقت کس کام میں مصروف ہو؟ بندہ نے بارہ امامانِ اہلِ بیت کے حوالے   سے عرض کی تو ” بارہ امام” کا کلمہ بندہ کی زبان سے نکلتے ہیں مرشدِ کریم پہ رقت طاری ہو گئی۔پھر تاکیدا فرمایا: یہ ضرور لکھو۔ مکمل کرو اور پھر مجھے بھی دو۔ بندہ پہلے ہی عزمِ مصمم رکھتا تھا لیکن اب حکم آکد کی وجہ سے اہمیت بڑھ گئی۔ سو باوجود کثرتِ مشاغل اور پیہم اسفار کے بندہ نے چند سطور بصورت “مقدمہ ، دو ابواب اور خاتمہ” سپردِ قرطاس کیں۔ مقدمہ میں بارہ امام کے تصور کی تاریخ کی جانب مختصر اشارہ ہے۔ پہلے باب میں چند ان اہلِ علم کا ذکر ہے جنہوں نے اپنے اپنے انداز اور اپنے اپنے طریقے سے ائمۂِ اہلِ بیت کے حضور حاضری لگوائی   اور اس بات پہ دلیل چھوڑی کہ اگر شیعہ حضرات ائمہِ اہلِ بیت کو کسی فاسد معنی کے اعتبار سے امام کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اہلِ حق اہلِسنت ان ہستیوں کی امامت کا انکار کر دیں۔ نیز یہ نفوسِ قدسیہ ایک ایسے مخصوص معنی کے لحاظ سے امام ہیں جس میں ہر عام وخاص کو شریک نہیں کیا جا سکتا۔دوسرے باب میں بابائے نواصب کی شخصیت پر پڑے پردوں کا ایک پرت ہٹانے کے بعد موصوف کی زہریلی گفتگو کا مختصر جائزہ لیا گیا ہے۔ اور خاتمہ میں سید السادات سیدنا ومرشدنا ومولانا وملجانا سید بن سید حضرت حسن مثنی علیہ السلام کا مختصر تذکرہ ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالی سے دعا ہے کہ مالک کریم جل مجدہ ان کلمات کو اہلِ اسلام کے لیے نفع بخش بنائے اور نواصب اور بابائے نواصب کی ستم ظریفیوں سے اہلِسنت کو محفوظ فرمائے۔ بارہ امامانِ اہلِ بیت کے صدقے ہمیں ایمان میں کمال ، دارین کی سعادتیں اور رسول اللہ ﷺ کی نسبتوں کا احترام بخشے۔ مولائے کائنات مولا علی کے صدقے میرے والدِگرامی کی روح کو علیین میں جگہ عطا فرمائے۔ آمین بحرمۃ النبی الامین والائمۃ الطاہرین صلی اللہ تعالی علیہ وعلی آلہ وسلم 13 رجب المرجب 1443ھ / 05 فروری 2023ء

[adinserter name=”Block 1″]

[adinserter name=”Block 1″]

Sofia Bewa
Sofia Bewa

Fish is one of our main sources of animal meat. Fish play a significant role in providing employment, foreign exchange earnings and nutrition. Different types of fish can be cultivated in the same pond, fish can be cultivated in canals and ponds, and fish can be cultivated in cages. Fish farming is the production of more fish than natural production in a specific water body in a planned way with low capital, short time and suitable technology. In order to be profitable in fish farming, the fish farmer has to follow certain rules in every phase from fish farming planning to marketing. Ignorance or negligence of the fish farmer or mistake is an obstacle to profitable fish farming. Fish is an important element in our daily diet. Due to the high demand for fish, it is possible to earn good income from fish farming. In addition to the local bazaar, it is possible to make a profit by selling fish in distant markets. Moreover, it is possible to earn a lot of foreign exchange by exporting fish abroad. Bangladesh is now fourth in fish farming. It is our pride.

We will be happy to hear your thoughts

Leave a reply

KitabPDF
Logo
Shopping cart